Ayah Study
Surah As-Sajda (سُورَةُ السَّجۡدَةِ), Verse 26
Ayah 3529 of 6236 • Meccan
أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ ٱلْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَٰكِنِهِمْ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍ ۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ
Translations
The Noble Quran
EnglishIs it not a guidance for them: how many generations We have destroyed before them in whose dwellings they do walk about? Verily, therein indeed are signs. Would they not then listen?
Muhammad Asad
Englishand [as] We raised among them leaders who, so long as they bore themselves with patience and had sure faith in Our messages, guided [their people] in accordance with Our behest – [so, too, shall it be with the divine writ revealed unto thee, O Muhammad.]
Fatah Muhammad Jalandhari
Urduکیا اُن کو اس (امر )سے ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے اُن سے پہلے بہت سی اُمتوں کو جن کے مقامات سکونت میں یہ چلتے پھرتے ہیں ہلاک کر دیا۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں۔ تو یہ سنتے کیوں نہیں
Word-by-Word Analysis
Explore the linguistic structure, grammar, and morphology of each word from the Quranic Arabic Corpus
Tafsir (Commentary)
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approvedيعني: أولم يتبين لهؤلاء المكذبين للرسول، ويهدهم إلى الصواب. { كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ } الذين سلكوا مسلكهم، { يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ } فيشاهدونها عيانًا، كقوم هود، وصالح، وقوم لوط.{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ } يستدل بها، على صدق الرسل، التي جاءتهم، وبطلان ما هم عليه، من الشرك والشر، وعلى أن من فعل مثل فعلهم، فُعِلَ بهم، كما فُعِلَ بأشياعه من قبل.وعلى أن اللّه تعالى مجازي العباد، وباعثهم للحشر والتناد. { أَفَلَا يَسْمَعُونَ } آيات اللّه، فيعونها، فينتفعون بها، فلو كان لهم سمع صحيح، وعقل رجيح، لم يقيموا على حالة يجزم بها، بالهلاك.
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedأولم يتبين لهؤلاء المكذبين للرسول: كم أهلكنا من قبلهم من الأمم السابقة يمشون في مساكنهم، فيشاهدونها عِيانًا كقوم هود وصالح ولوط؟ إن في ذلك لآيات وعظات يُستدَلُّ بها على صدق الرسل التي جاءتهم، وبطلان ما هم عليه من الشرك، أفلا يسمع هؤلاء المكذبون بالرسل مواعظ الله وحججه، فينتفعون بها؟
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedيقول تعالى أو لم يهد لهؤلاء المكذبين بالرسل ما أهلك الله قبلهم من الأمم الماضية بتكذيبهم الرسل ومخالفتهم إياهم فيما جاءوهم به من قويم السبل فلم يبق منهم من باقية ولا عين ولا أثر "هل تحس منهم من أحد أو تسمع لهم ركزا" ولهذا قال "يمشون في مساكنهم" أي وهؤلاء المكذبون يمشون في مساكن أولئك المكذبين فلا يرون فيها أحدا ممن كان يسكنها ويعمرها ذهبوا منها "كأن لم يغنوا فيها" كما قال "فتلك بيوتهم خاوية بما ظلموا" وقال "وكأين من قرية أهلكناها وهي ظالمة فهي خاوية على عروشها وبئر معطلة وقصر مشيد أفلم يسيروا في الأرض - إلى قوله - ولكن تعمى القلوب التي في الصدور" ولهذا قال ههنا "إن في ذلك لآيات" أي إن في ذهاب أولئك القوم ودمارهم وما حل بهم بسبب تكذيبهم الرسل ونجاة من آمن بهم لآيات وعبرا ومواعظ ودلائل متناظرة "أفلا يسمعون" أي أخبار من تقدم كيف كان أمرهم.
Tafsir Ibn Kathir
Learning the Lessons of the Past Allah says: will these people who deny the Messengers not learn from the nations who came before them, whom Allah destroyed for their rejection of His Messengers and their opposition to what the Messengers brought them of the straight path No trace is left of them whatsoever. هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً (Can you find a single one of them or hear even a whisper of them) (19:98). Allah says: يَمْشُونَ فِى مَسَـكِنِهِمْ (in whose dwellings they do walk about) meaning, these disbelievers walk about in the places where those disbelievers used to live, but they do not see any of those who used to live there, for they have gone -- كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَآ (As if they had never lived there) (11:68) This is like the Ayat: فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُواْ (These are their houses in utter ruin, for they did wrong) (27:52). فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ (And many a township did We destroy while they were given to wrongdoing, so that it lie in ruins, and (many) a deserted well and lofty castle! Have they not traveled through the land) until: وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ (but it is the hearts which are in the breasts that grow blind.) (22:45-46) Allah says here: إِنَّ فِى ذَلِكَ لاّيَاتٍ (Verily, therein indeed are signs.) meaning, in the fact that these people are gone and have been destroyed, and in what happened to them because they disbelieved the Messengers, and how those who believed in them were saved, there are many signs, proofs and important lessons. أَفَلاَ يَسْمَعُونَ (Would they not then listen) means, to the stories of those who came before and what happened to them. n The Revival of the Earth with Water is Proof of the Resurrection to come أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَسُوقُ الْمَآءَ إِلَى الاٌّرْضِ الْجُرُزِ (Have they not seen how We drive water to the dry land) Here Allah explains His kindness and goodness towards them by His sending water to them, whether from the sky or from water flowing through the land, water carried by rivers down from the mountains to the lands that need it at particular times. Allah says: إِلَى الاٌّرْضِ الْجُرُزِ (to the dry land) which means the land where nothing grows, as in the Ayah, وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيداً جُرُزاً (And verily, We shall make all that is on it a bare dry soil.) (18:8) i.e., barren land where nothing grows. Allah says here: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَسُوقُ الْمَآءَ إِلَى الاٌّرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعاً تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَـمُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ أَفَلاَ يُبْصِرُونَ (Have they not seen how We drive water to the dry land that has no vegetation, and therewith bring forth crops providing food for their cattle and themselves Will they not then see) This is like the Ayah, فَلْيَنظُرِ الإِنسَـنُ إِلَى طَعَامِهِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبّاً (Then let man look at his food: We pour forth water in abundance.) (80:24-25). Allah says here: أَفَلاَ يُبْصِرُونَ (Will they not then see)
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedدریائے نیل کے نام عمر بن خطاب ؓ کا خط کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ وبالا کردیا ہے۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بےپرواہی کی۔ اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لئے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں۔ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا ؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے ناآشنا ہیں۔ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف وکرم کو احسان و انعام کو بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے۔ گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہوگئے ہوں زمین یبوست (خشکی) کے مارے پھٹنے لگی ہو۔ بیشک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتا جاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہر سال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے۔ اس حکیم و کریم منان ورحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں حضرت عمرو بن عاص ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلاکر رضامند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اسکا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں۔ سپہ سلار اسلام حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر نے جواب دیا کہ یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کرسکتے۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہنیہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا۔ لوگ تنگ آکر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں۔ یہاں کی بود وباش ترک کردیں اب فاتح مصر کو خیال گذرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے بندے امیر المومنین عمر ؓ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف۔ بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد وقہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کردے۔ یہ پرچہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ ابھی ایک رات بھی گذرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی۔ خط کے ساتھ ہی خطہ کا خطہ سرسبز ہوگیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا۔ (کتاب السنہ للحافظ ابو القاسم اللالکائی) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے (فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ 24ۙ) 80۔ عبس :24) یعنی انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جرز وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں یہ زمین یمن میں ہے حسن فرماتے ہیں ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں۔ ابن زید وغیرہ کا قول ہے یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے (وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ 33) 36۔ يس :33) ان کے لئے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کردیتے ہیں۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.