Ayah Study
Surah Al-Baqara (سُورَةُ البَقَرَةِ), Verse 55
Ayah 62 of 6236 • Medinan
وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةًۭ فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
Translations
The Noble Quran
EnglishAnd (remember) when you said: "O Mûsâ (Moses)! We shall never believe in you until we see Allâh plainly." But you were seized with a thunder-bolt (lightning) while you were looking.
Muhammad Asad
EnglishAnd [remember the time] when We vouchsafed unto Moses the divine writ – and [thus] a standard by which to discern the true from the false – so that you might be guided aright;
Fatah Muhammad Jalandhari
Urduاور جب تم نے (موسیٰ) سے کہا کہ موسیٰ، جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے، تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
Word-by-Word Analysis
Explore the linguistic structure, grammar, and morphology of each word from the Quranic Arabic Corpus
Tafsir (Commentary)
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approvedتفسير الآيات من 50 الى 55 :ـ ثم ذكر منته عليهم بوعده لموسى أربعين ليلة لينزل عليهم التوراة المتضمنة للنعم العظيمة والمصالح العميمة، ثم إنهم لم يصبروا قبل استكمال الميعاد حتى عبدوا العجل من بعده, أي: ذهابه. { وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ } عالمون بظلمكم, قد قامت عليكم الحجة, فهو أعظم جرما وأكبر إثما. ثم إنه أمركم بالتوبة على لسان نبيه موسى بأن يقتل بعضكم بعضا فعفا الله عنكم بسبب ذلك { لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ } الله.
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedواذكروا إذ قلتم: يا موسى لن نصدقك في أن الكلام الذي نسمعه منك هو كلام الله، حتى نرى الله عِيَانًا، فنزلت نار من السماء رأيتموها بأعينكم، فقَتَلَتْكم بسبب ذنوبكم، وجُرْأتكم على الله تعالى.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedيقول تعالى واذكروا نعمتي عليكم في بعثي لكم بعد الصعق إذ سألتم رؤيتي جهرة عيانا مما لا يستطاع لكم ولا لأمثالكم كما قال ابن جريج قال: ابن عباس في هذه الآية "وإذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة" قال علانية وكذا قال: إبراهيم بن طهمان عن عباد بن إسحاق عن أبي الحويرث عن ابن عباس أنه قال: في قوله تعالى "لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة" أي علانية أي حتى نرى الله وقال قتادة والربيع بن أنس "حتى نرى الله جهرة" أي عيانا وقال أبو جعفر عن الربيع بن أنس هم السبعون الذين اختارهم موسى فساروا معه قال فسمعوا كلاما فقالوا "لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة" قال فسمعوا صوتا فصعقوا يقول مالوا. وقال: مروان بن الحكم فيما خطب به على منبر مكة الصاعقة صيحة من السماء وقال السدي في قوله "فأخذتكم الصاعقة" نار وقال: عروة بن رويم في قوله "وأنتم تنظرون" قال: صعق بعضهم وبعض ينظرون ثم بعث هؤلاء وصعق هؤلاء وقال السدي "فأخذتكم الصاعقة" فماتوا فقام موسى يبكي ويدعو الله ويقول: رب ماذا أقول لبني إسرائيل إذا أتيتهم وقد أهلكت خيارهم لو شئت أهلكتهم من قبل وإياي أتهلكنا بما فعل السفهاء منا فأوحى الله إلى موسى أن هؤلاء السبعين ممن اتخذوا العجل ثم إن الله أحياهم فقاموا وعاشوا رجل رجل ينظر بعضهم إلى بعض كيف يحيون.
Tafsir Ibn Kathir
The Best among the Children of Israel ask to see Allah; their subsequent Death and Resurrection Allah said, `Remember My favor on you for resurrecting you after you were seized with lightning when you asked to see Me directly, which neither you nor anyone else can bear or attain.' This was said by Ibn Jurayj. Ibn `Abbas said that the Ayah وَإِذْ قُلْتُمْ يَـمُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً (And (remember) when you said: "O Musa ! We shall never believe in you until we see Allah plainly.") means, "Publicly", "So that we gaze at Allah." Also, `Urwah bin Ruwaym said that Allah's statement, وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ (While you were looking) means, "Some of them were struck with lightning while others were watching." Allah resurrected those, and struck the others with lightning. As-Suddi commented on, فَأَخَذَتْكُمُ الصَّـعِقَةُ (But you were seized with a bolt of lightning) saying; "They died, and Musa stood up crying and supplicating to Allah, `O Lord! What should I say to the Children of Israel when I go back to them after You destroyed the best of them, لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّـىَ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّآ (If it had been Your will, You could have destroyed them and me before; would You destroy us for the deeds of the foolish ones among us)' Allah revealed to Musa that these seventy men were among those who worshipped the calf. Afterwards, Allah brought them back to life one man at a time, while the rest of them were watching how Allah was bringing them back to life. That is why Allah's said, ثُمَّ بَعَثْنَـكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (Then We raised you up after your death, so that you might be grateful.)" Ar-Rabi` bin Anas said, "Death was their punishment, and they were resurrected after they died so they could finish out their lives." Qatadah said similarly. `Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam commented on this Ayah, "Musa returned from meeting with his Lord carrying the Tablets on which He wrote the Tawrah. He found that they had worshipped the calf in his absence. Consequently, he commanded them to kill themselves, and they complied, and Allah forgave them. He said to them, `These Tablets have Allah's Book, containing what He commanded you and what He forbade for you.' They said, `Should we believe this statement because you said it By Allah, we will not believe until we see Allah in the open, until He shows us Himself and says: This is My Book, therefore, adhere to it. Why does He not talk to us as He talked to you, O, Musa"' Then he (`Abdur-Rahman bin Zayd) recited Allah's statement, لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً (We shall never believe in you until we see Allah plainly) and said, "So Allah's wrath fell upon them, a thunderbolt struck them, and they all died. Then Allah brought them back to life after He killed them." Then he (`Abdur-Rahman) recited Allah's statement, ثُمَّ بَعَثْنَـكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (Then We raised you up after your death, so that you might be grateful), and said, "Musa said to them, `Take the Book of Allah.' They said, `No.' He said, `What is the matter with you' They said, `The problem is that we died and came back to life.' He said, `Take the Book of Allah.' They said, `No.' So Allah sent some angels who made the mountain topple over them." This shows that the Children of Israel were required to fulfill the commandments after they were brought back to life. However, Al-Mawardy said that there are two opinions about this matter. The first opinion is that since the Children of Israel witnessed these miracles, they were compelled to believe, so they did not have to fulfill the commandments. The second opinion states that they were required to adhere to the commandments, so that no responsible adult is free of such responsibilities. Al-Qurtubi said that this is what is correct, because, he said, although the Children of Israel witnessed these tremendous calamities and incidents, that did not mean that they were not responsible for fulfilling the commandments any more. Rather they are responsible for that, and this is clear. Allah knows best.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedہم بھی اللہ عزوجل کو خود دیکھیں گے موسیٰ ؑ جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الٰہی سنا تو حضرت موسیٰ سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز ہوئی جس سے سب کے سب مرگئے۔ موسیٰ ؑ یہ دیکھ کر گریہ وزاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ۔ یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی۔ پھر انہیں زندہ کردیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے۔ ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ ؑ اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہہ کی۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لئے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہوجاؤ کپڑوں کو پاک کرلو جب بحکم الٰہی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے جب موسیٰ ؑ پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ ؑ کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ بادل کی اوٹ ہوگئی اور سب لوگ سجدے میں گرپڑے اور حضرت موسیٰ ؑ کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہ العالمین ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ ؑ ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ اب موسیٰ ؑ نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اللہ ہماری توبہ ہے۔ تو قبول فرما۔ اور ہم پر فضل و کرم کر، حضرت موسیٰ ؑ یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کردیا، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا۔ سدی کبیر کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑانے کے بعد کا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں۔ رازی نے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ ﷺ ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے۔ آپ نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ ؑ کے زمانے میں سوائے ہارون ؑ کے اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون ؑ کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں۔ اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ خود موسیٰ ؑ نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کردیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری کی تاب کیسے لاتے ؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ موسیٰ ؑ توراۃ لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہوجاؤ تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے ؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الٰہی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے پھر موسیٰ ؑ نے انہیں کہا کہ اب تو اس توراۃ کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کردیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الٰہی ان پر پھر بھی جاری رہے ماوردی نے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لئے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بےاختیاری امر ہوگیا۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے۔ قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کرسکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.