Al-Baqara 17Juz 1

Ayah Study

Surah Al-Baqara (سُورَةُ البَقَرَةِ), Verse 17

Ayah 24 of 6236 • Medinan

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى ٱسْتَوْقَدَ نَارًۭا فَلَمَّآ أَضَآءَتْ مَا حَوْلَهُۥ ذَهَبَ ٱللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِى ظُلُمَٰتٍۢ لَّا يُبْصِرُونَ

Translations

The Noble Quran

English

Their likeness is as the likeness of one who kindled a fire; then, when it lighted all around him, Allâh took away their light and left them in darkness. (So) they could not see.

Muhammad Asad

English

deaf, dumb, blind – and they cannot turn back.

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے (شبِ تاریک میں) آگ جلائی۔ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان کی روشنی زائل کر دی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے

Word-by-Word Analysis

Explore the linguistic structure, grammar, and morphology of each word from the Quranic Arabic Corpus

Loading word-by-word analysis...

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

أي: مثلهم المطابق لما كانوا عليه كمثل الذي استوقد نارا، أي: كان في ظلمة عظيمة, وحاجة إلى النار شديدة فاستوقدها من غيره, ولم تكن عنده معدة, بل هي خارجة عنه، فلما أضاءت النار ما حوله, ونظر المحل الذي هو فيه, وما فيه من المخاوف وأمنها, وانتفع بتلك النار, وقرت بها عينه, وظن أنه قادر عليها, فبينما هو كذلك, إذ ذهب الله بنوره, فذهب عنه النور, وذهب معه السرور, وبقي في الظلمة العظيمة والنار المحرقة, فذهب ما فيها من الإشراق, وبقي ما فيها من الإحراق، فبقي في ظلمات متعددة: ظلمة الليل, وظلمة السحاب, وظلمة المطر, والظلمة الحاصلة بعد النور, فكيف يكون حال هذا الموصوف؟ فكذلك هؤلاء المنافقون, استوقدوا نار الإيمان من المؤمنين, ولم تكن صفة لهم, فانتفعوا بها وحقنت بذلك دماؤهم, وسلمت أموالهم, وحصل لهم نوع من الأمن في الدنيا، فبينما هم على ذلك إذ هجم عليهم الموت, فسلبهم الانتفاع بذلك النور, وحصل لهم كل هم وغم وعذاب, وحصل لهم ظلمة القبر, وظلمة الكفر, وظلمة النفاق, وظلم المعاصي على اختلاف أنواعها, وبعد ذلك ظلمة النار [وبئس القرار].

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

حال المنافقين الذين آمنوا -ظاهرًا لا باطنًا- برسالة محمد صلى الله عليه وسلم، ثم كفروا، فصاروا يتخبطون في ظلماتِ ضلالهم وهم لا يشعرون، ولا أمل لهم في الخروج منها، تُشْبه حالَ جماعة في ليلة مظلمة، وأوقد أحدهم نارًا عظيمة للدفء والإضاءة، فلما سطعت النار وأنارت ما حوله، انطفأت وأعتمت، فصار أصحابها في ظلمات لا يرون شيئًا، ولا يهتدون إلى طريق ولا مخرج.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

يقال مثل ومثل ومثيل أيضا والجمع أمثال قال الله تعالى "وتلك الأمثال نضربها للناس وما يعقلها إلا العالمون" وتقدير هذا المثل أن الله سبحانه شبههم في اشترائهم الضلالة بالهدى وصيرورتهم بعد البصيرة إلى العمى بمن استوقد نارا فلما أضاءت ما حوله وانتفع بها وأبصر بها ما عن يمينه وشماله وتأنس بها فبينا هو كذلك إذ طفئت ناره وصار في ظلام شديد لا يبصر ولا يهتدي وهو مع هذا أصم لا يسمع أبكم لا ينطق أعمى لو كان ضياء لما أبصر فلهذا لا يرجع إلى ما كان عليه قبل ذلك فكذلك هؤلاء المنافقون في استبدالهم عوضا عن الهدى واستحبابهم الغي على الرشد. وفي هذا المثل دلالة على أنهم آمنوا ثم كفروا كما أخبر تعالى عنهم في غير هذا الموضع والله أعلم. وقد حكى هذا الذي قلناه الرازي في تفسيره عن السدي ثم قال والتشبيه هاهنا في غاية الصحة لأنهم بإيمانهم اكتسبوا أولا نورا ثم بنفاقهم ثانيا أبطلوا ذلك فوقعوا في حيرة عظيمة فإنه لا حيرة أعظم من حيرة الدين. وزعم ابن جرير أن المضروب لهم المثل هاهنا لم يؤمنوا في وقت من الأوقات واحتج بقوله تعالى "ومن الناس من يقول آمنا بالله وباليوم الآخر وما هم بمؤمنين" والصواب أن هذا إخبار عنهم في حال نفاقهم وكفرهم وهذا لا ينفي أنه كان حصل لهم إيمان قبل ذلك ثم سلبوه وطبع على قلوبهم ولم يستحضر ابن جرير هذه الآية هاهنا وهي قوله تعالى "ذلك بأنهم آمنوا ثم كفروا فطبع على قلوبهم فهم لا يفقهون" فلهذا وجه هذا المثل بأنهم استضاءوا بما أظهروه من كلمة الإيمان أي في الدنيا ثم أعقبهم ظلمات يوم القيامة. قال: وصح ضرب مثل الجماعة بالواحد كما قال "رأيتهم ينظرون إليك تدور أعينهم كالذي يغشى عليه من الموت" أي كدوران الذي يغشى عليه من الموت. وقال تعالى "ما خلقكم ولا بعثكم إلا كنفس واحدة" وقال تعالى "مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا" وقال بعضهم تقدير الكلام مثل قصتهم كقصة الذين استوقدوا نارا وقال بعضهم المستوقد واحد لجماعة معه وقال آخرون الذي هاهنا بمعنى الذين كما قال الشاعر: وإن الذي حانت بفلج دماؤهم هم القوم كل القوم يا أم خالد قلت وقد التفت في أثناء المثل من الواحد إلى الجمع في قوله تعالى "فلما أضاءت ما حوله ذهب الله بنورهم وتركهم في ظلمات لا يبصرون. صم بكم عمي فهم لا يرجعون" وهذا أفصح في الكلام وأبلغ في النظام وقوله تعالى "ذهب الله بنورهم" أي ذهب عنهم بما ينفعهم وهو النور وأبقى لهم ما يضرهم وهو الإحراق والدخان "وتركهم في الظلمات" وهو ما هم فيه من الشك والكفر والنفاق "لا يبصرون" لا يهتدون إلى سبيل خير ولا يعرفونها.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

The Example of the Hypocrites Allah likened the hypocrites when they bought deviation with guidance, thus acquiring utter blindness, to the example of a person who started a fire. When the fire was lit, and illumnitated the surrounding area, the person benefited from it and felt safe. Then the fire was suddenly extinguished. Therefore, total darkness covered this person, and he became unable to see anything or find his way out of it. Further, this person could not hear or speak and became so blind that even if there were light, he would not be able to see. This is why he cannot return to the state that he was in before this happened to him. Such is the case with the hypocrites who preferred misguidance over guidance, deviation over righteousness. This parable indicates that the hypocrites first believed, then disbelieved, just as Allah stated in other parts of the Qur'an. Allah's statement, ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ (Allah removed their light) means, Allah removed what benefits them, and this is the light, and He left them with what harms them, that is, the darkness and smoke. Allah said, وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَـتٍ (And left them in darkness), that is their doubts, disbelief and hypocrisy. لاَّ يُبْصِرُونَ ((So) they could not see) meaning, they are unable to find the correct path or find its direction. In addition, they are, صُمٌّ (deaf) and thus cannot hear the guidance, بِكُمْ (dumb) and cannot utter the words that might benefit them, عَمًى (and blind) in total darkness and deviation. Similarly, Allah said, فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ (Verily, it is not the eyes that grow blind, but it is the hearts which are in the breasts that grow blind) (22:46) and this why they cannot get back to the state of guidance that they were in, since they sold it for misguidance.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

شک، کفر اور نفاق کیا ہے ؟ مثال کو عربی میں مثیل بھی کہتے ہیں اس کی جمع امثال آتی ہے۔ جیسے قرآن میں ہے آیت (وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا للنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ) 29۔ العنکبوت :43) یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جنہیں صرف عالم ہی سمجھتے ہیں۔ اس آیت شریف کا مطلب یہ ہے کہ جو منافق گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور اندھے پن کو بینائی کے بدلے مول لیتے ہیں ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی اس کے دائیں بائیں کی چیزیں اسے نظر آنے لگیں، اس کی پریشانی دور ہوگئی اور فائدے کی امید بندھی کہ دفعتہ آگ بجھ گئی اور سخت اندھیرا چھا گیا نہ تو نگاہ کام کرسکے، نہ راستہ معلوم ہو سکے اور باوجود اس کے وہ شخص خود بہرا ہو۔ کسی کی بات کو نہ سن سکتا ہو۔ گونگا ہو کسی سے دریافت نہ کرسکتا ہو، اندھا ہو جو روشنی سے کام نہ چلا سکتا ہو۔ اب بھلا یہ راہ کیسے پا سکے گا ؟ ٹھیک اسی طرح یہ منافق بھی ہیں کہ ہدایت چھوڑ کر راہ گم کر بیٹھے اور بھلائی چھوڑ کر برائی کو چاہنے لگے۔ اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان قبول کر کے کفر کیا تھا۔ جیسے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ صراحت موجود ہے واللہ اعلم۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں سدی سے یہی نقل کیا ہے۔ پھر کہا ہے کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اور صحیح ہے، اس لئے کہ اولاً تو ان منافقوں کو نور ایمان حاصل ہوا پھر ان کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیا اور یہ حیرت میں پڑگئے اور دین گم ہوجانے کی حیرت سے بڑی حیرت اور کیا ہوگی ؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ جن کی یہ مثال بیان کی گئی ہے انہیں کسی وقت بھی ایمان نصیب ہی نہ ہوا تھا کیونکہ پہلے فرمان الٰہی گزر چکا ہے کہ آیت (وماھم بمومنین) یعنی گو یہ زبان سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایماندار نہیں۔ درحقیقت اس آیۃ مبارکہ میں ان کے کفر و نفاق کے وقت کی خبر دی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حالت کفر و نفاق سے پہلے کبھی انہیں ایمان حاصل ہی نہیں ہوا۔ ممکن ہے ایمان لائے ہوں، پھر اس سے ہٹ گئے ہوں اور اب دلوں میں مہریں لگ گئی ہوں دیکھئے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے آیت (ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ) 63۔ المنافقون :3) یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا، پھر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی۔ اب وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مثال میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے یعنی کلمہ ایمان کے ظاہر کرنے کی وجہ سے دنیا میں کچھ نور ہوگیا، کفر کے چھپانے کی وجہ سے پھر آخرت کے اندھیروں نے گھیر لیا۔ ایک جماعت کی مثال شخص واحد سے اکثر دی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ ہے آیت (رَاَيْتَهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَي الْخَــيْرِ) 33۔ الاحزاب :19) تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف آنکھیں پھیر پھیر کر اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص جو سکرات موت میں ہو۔ اور اس آیت کو بھی دیکھئے آیت (مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ) 31۔ لقمان :28) تم سب کا پیدا کرنا اور مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کردینا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرتا۔ تیسری جگہ توراۃ سیکھ کر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میں کہا گیا ہے آیت (كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا) 62۔ الجمعہ :5) گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو۔ سب آیتوں میں جماعت کی مثال ایک ہی دی گئی ہے۔ اسی طرح مذکورہ بالا آیت میں منافقوں کی جماعت کی مثال ایک شخص سے دی گئی۔ بعض کہتے ہیں تقدیر کلام یوں ہے۔ آیت (مثل قصتھم کمثل قصۃ الذین استوقدوا نارا) یعنی ان کے واقعہ کی مثال ان لوگوں کے واقعہ کی طرح ہے جو آگ روشن کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ آگ جلانے والا تو ایک ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پوری جماعت اس سے محظوظ ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اس قسم کا اور الذی یہاں الذین کے معنی میں ہیں جیسے کہ شاعروں کے شعروں میں بھی میں کہتا ہوں اس مثال میں بھی واحد کے صیغہ کے بعد ہی جمع کے صیغہ بھی ہیں بنورھم اور ترکھم اور لا یرجعون ملاحظہ ہوں۔ اس طرح کلام میں اعلیٰ فصاحت اور بہترین خوبی بھی آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روشنی لے گیا اس سے مطلب یہ ہے کہ جو نور نفع دینے والا تھا وہ تو ان سے ہٹا لیا اور جس طرح آگ کے بجھ جانے کے بعد تپش اور دھواں اور اندھیرا رہ جاتا ہے اسی طرح ان کے پاس نقصان پہنچانے والی چیز یعنی شک و کفر و نفاق رہ گیا تو راہ راست کو نہ خود دیکھ سکیں نہ دوسرے کی بھلی بات سن سکیں نہ کسی سے بھلائی کا سوال کرسکیں۔ اب پھر لوٹ کر ہدایت پر آنا محال ہوگیا۔ اس کی تائید میں مفسرین کے اقوال سنئے۔ حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض اور صحابہ رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں حضور ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد کچھ لوگ اسلام لے آئے مگر پھر منافق بن گئے۔ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اندھیرے میں ہو پھر آگ جلا کر روشنی حاصل کرے اور آس پاس کی بھلائی برائی کو سمجھنے لگے اور معلوم کرے کہ کس راہ میں کیا ہے ؟ کہ اچانک آگ بجھ جائے روشنی جاتی رہے۔ اب معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس راہ میں کیا کیا ہے ؟ اسی طرح منافق شرک و کفر کی ظلمت میں تھے پھر اسلام لا کر بھلائی برائی یعنی حلال حرام وغیرہ سمجھنے لگے مگر پھر کافر ہوگئے اور حرام و حلال خیرو شر میں کچھ تمیز نہ رہی۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں نور سے مراد ایمان اور ظلمت سے مراد ضلالت و کفر ہے یہ لوگ ہدایت پر تھے لیکن پھر سرکشی کر کے بہک گئے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ایمانداری اور ہدایت کی طرف رخ کرنے کو اس مثال میں آس پاس کی چیز کے روشنی کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عطا خراسانی کا قول ہے کہ منافق کبھی کبھی بھلائی کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان بھی لیتا ہے لیکن پھر اس کے دل کی کور چشمی اس پر غالب آجاتی ہے۔ عکرمہ، عبدالرحمن، حسن، سدی اور ربیع سے بھی یہی منقول ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ ایمان لاتے ہیں اور اس کی پاکیزہ روشنی سے ان کے دل جگمگا اٹھتے ہیں جیسے آگ کے جلانے سے آس پاس کی چیزیں روشن ہوجاتی ہیں لیکن پھر کفر اس روشنی کو کھو دیتا ہے جس طرح آگ کا بجھ جانا پھر اندھیرا کردیتا ہے۔ مندرجہ بالا اقوال تو ہماری اس تفسیر کی تائید میں تھے کہ جن منافقوں کی یہ مثال بیان کی گئی ہے وہ ایمان لا چکے تھے پھر کفر کیا۔ اب امام ابن جریر کی تائید میں جو تفسیر ہے اسے بھی سنئے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ مثال منافقوں کی ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے عزت پالیتے ہیں۔ مسلمانوں میں نکاح، ورثہ اور تقسیم مال غنیمت میں شامل ہوتے ہیں لیکن مرتے ہی یہ عزت چھن جاتی ہے جس طرح آگ کی روشنی آگ بجھتے ہی جاتی رہتی ہے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں جب منافق آیت (لا الہ الا اللہ) پڑھتا ہے تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے پھر جہاں شک کیا وہ نور گیا، جس طرح لکڑیاں جب تک جلتی رہیں روشنی رہی، جہاں بجھ گئیں نور گیا۔ ضحاک فرماتے ہیں نور سے مراد یہاں ایمان ہے جو ان کی زبانوں پر تھا۔ قتادہ کہتے ہیں آیت (لا الہ الا اللہ) ان کے لئے روشنی کردیتا تھا امن وامان، کھانا پینا، بیوی بچے سب مل جاتے تھے لیکن شک و نفاق ان سے یہ تمام راحتیں چھین لیتا ہے جس طرح آگ کا بجھنا روشنی دور کردیتا ہے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آیت (لا الہ الا اللہ) کہنے سے منافق کو (دنیوی نفع مثلاً مسلمانوں میں لڑکے لڑکی کا لین دین، ورثہ کی تقسیم، جان و مال کی حفاظت وغیرہ) مل جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان کی جڑ اور اس کے اعمال میں خلوص نہیں ہوتا اس لئے موت کے وقت وہ سب منافع سلب ہوجاتے ہیں جیسے آگ کی روشنی بجھ جائے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اندھیروں میں چھوڑ دینا سے مراد مرنے کے بعد عذاب پانا ہے۔ یہ لوگ حق کو دیکھ کر زبان سے اس کا اس کا اقرار ہیں اور ظلمت کفر سے نکل جاتے ہیں لیکن پھر اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے ہدایت اور حق پر قائم رہنا ان سے چھن جاتا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اندھیرے سے مراد ان کا نفاق ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں موت کے وقت منافقین کی بد اعمالیاں اندھیروں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں اور کسی بھلائی کی روشنی ان کے لئے باقی نہیں رہتی جس سے ان کی توحید کی تصدیق ہو۔ وہ بہرے ہیں، حق کے سننے اور راہ راست کو دیکھنے اور سمجھنے سے اندھے ہیں۔ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے۔ نہ انہیں توبہ نصیب ہوتی ہے نہ نصیحت حاصل کرسکتے ہیں۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.