Yusuf 1Juz 12

Ayah Study

Surah Yusuf (سُورَةُ يُوسُفَ), Verse 1

Ayah 1597 of 6236 • Meccan

الٓر ۚ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ

Translations

The Noble Quran

English

Alif-Lâm-Râ. [These letters are one of the miracles of the Qur’ân, and none but Allâh (Alone) knows their meanings]. These are the Verses of the Clear Book (the Qur’ân that makes clear the legal and illegal things, laws, a guidance and a blessing).

Muhammad Asad

English

lif. Lām. Rā.

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں

Word-by-Word Analysis

Explore the linguistic structure, grammar, and morphology of each word from the Quranic Arabic Corpus

Loading word-by-word analysis...

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

يخبر تعالى أن آيات القرآن هي { آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ ْ} أي: البين الواضحة ألفاظه ومعانيه.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

(الر) سبق الكلام على الحروف المقطَّعة في أول سورة البقرة.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

سورة يوسف روى الثعلبي وغيره من طريق سلام بن سليم ويقال سليم المدائني وهو متروك عن هارون بن كثير وقد نص على جهالته أبو حاتم عن زيد بن أسلم عن أبيه عن أبي أمامة عن أبي بن كعب قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم " علموا أرقاكم سورة يوسف فإنه أيما مسلم تلاها أو علمها أهله أو ما ملكت يمينه هون الله عليه سكرات الموت وأعطاه من القوة أن لا يحسد مسلما "وهذا من هذا الوجه لا يصح لضعف إسناده بالكلية وقد ساقه الحافظ ابن عساكر متابعا من طريق القاسم بن الحكم عن هارون بن كثير به رمن طريق شبابة عن محمد بن عبد الواحد النضري عن علي بن زيد بن جدعان وعن عطاء بن أبي ميمونه عن زر بن حبيش عن أبي بن كعب عن النبي صلي الله عليه وسلم فذكر نحوه وهو منكر سائر طرقه وروى البيهقي في الدلائل أن طائفة من اليهود حين سمعوا رسول الله صلي الله عليه وسلم يتلو هذه السورة أسلموا لموافقتها ما عندهم وهو من رواية الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس. بسم الله الرحمن الرحيم أما الكلام على الحـروف المقطعة فقد تقدم في أول سورة البقرة وقوله "تلك آيات الكتاب " أي هذه آيات الكتاب وهو القرآن المبين أي الواضح الجلي الذي يفصح عن الأشياء المبهمة ويفسرها ويبينها.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

Which was revealed in Makkah بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. Qualities of the Qur'an In the beginning of Surat Al-Baqarah we talked about the separate letters, Allah said, تِلْكَ ءايَـتُ الْكِتَـبِ (These are the verses of the Book) in reference to the Clear Qur'an that is plain and apparent, and explains, clarifies and makes known the unclear matters. Allah said next, إِنَّآ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (Verily, We have sent it down as an Arabic Qur'an in order that you may understand.) The Arabic language is the most eloquent, plain, deep and expressive of the meanings that might arise in one's mind. Therefore, the most honorable Book, was revealed in the most honorable language, to the most honorable Prophet and Messenger , delivered by the most honorable angel, in the most honorable land on earth, and its revelation started during the most honorable month of the year, Ramadan. Therefore, the Qur'an is perfect in every respect. So Allah said, نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ هَـذَا الْقُرْءَانَ (We relate unto you the best of stories through Our revelations unto you, of this Qur'an.) Reason behind revealing Ayah (12:3) On the reason behind revealing Ayah (12:3), Ibn Jarir At-Tabari recorded that `Abdullah bin `Abbas said, "They said, `O, Allah's Messenger! Why not narrate to us stories' Later on, this Ayah was revealed, نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ (We relate unto you the best of stories...)" There is a Hadith that is relevant upon mentioning this honorable Ayah, which praises the Qur'an and demonstrates that it is sufficient from needing all books besides it. Imam Ahmad recorded a narration from Jabir bin `Abdullah that `Umar bin Al-Khattab came to the Prophet with a book that he took from some of the People of the Book. `Umar began reading it to the Prophet who became angry. He said, «أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقَ فَتُكَذِّبُونَهُ، أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُونَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي» (Are you uncertain about it Ibn Al-Khattab By the One in Whose Hand is my soul! I have come to you with it white and pure. Do not ask them about anything, for they might tell you something true and you reject it, or they might tell you something false and you believe it. By the One in Whose Hand is my soul! If Musa were living, he would have no choice but to follow me.) Imam Ahmad also recorded a narration from `Abdullah bin Thabit who said, "`Umar came to Allah's Messenger ﷺ and said; `O Messenger of Allah! I passed by a brother of mine from the tribe of Qurayzah, so he wrote some comprehensive statements from the Tawrah for me, should I read them to you' The face of Allah's Messenger ﷺ changed with anger. So I said to him, `Don't you see the face of Allah's Messenger ﷺ" `Umar said, `We are pleased with Allah as our Lord, Islam as our religion, and Muhammad ﷺ as our Messenger.' So the anger of the Prophet subsided, and he said, «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ، إِنَّكُمْ حَظِّي مِنَ الْأُمَمِ، وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنَ النَّبِيِّين» (By the One in Whose Hand is Muhammad's soul, if Musa appeared among you and you were to follow him, abandoning me, then you would have strayed. Indeed you are my share of the nations, and I am your share of the Prophets.)"

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کردینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے، اس لے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول ﷺ ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا حضور ﷺ کوئی واقعہ بھی بیان ہوجاتا تو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23؀) 39۔ الزمر :23) اتری۔ اور بات بیان ہوئی۔ روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ، اس پر یہ آیتیں اتریں، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر (آیت اللہ نزل الخ،) اتری۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی۔ اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے۔ اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بےنیاز کردینے والا ہے۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کردیں جس میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر حضور ﷺ ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود حضرت موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کہا کہ بنو قریضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ ؟ آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن ثابت نے کہا کہ اے عمر کیا تم حضور ﷺ کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ اب حضرت عمر کی نگاہ پڑی تو آپ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ﷺ ہونے پر دل سے رضامند ہیں۔ اب آپ کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ اگر تم میں خود حضرت موسیٰ ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہوجاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں۔ ابو یعلی میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم ؓ کے پاس آیا آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے ؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے ؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا۔ اس نے کہا امیر المومنین میرا کیا قصور ہے ؟ آپ نے فرمایا بیٹھ جا۔ میں بتاتا ہوں پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اسی سورت کی (آیتیں لمن الغافلین) تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیرالمومنین میرا قصور کیا ہے آپ نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں۔ میں کرنے کو تیار ہوں، آپ نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے۔ پھر فرمایا بیٹھ جا، ایک بات سنتا جا۔ میں نے جاکر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لئے ہوئےحضور ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہوگئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے حضور ﷺ کو ناراض کردیا ہے اور منبر نبوی ﷺ کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے۔ اب آپ نے فرمایا لوگو میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں۔ خبردار تم بہک نہ جانا۔ گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میں تو یارسول اللہ ﷺ اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر آپ کے رسول ﷺ ہونے پر دل سے راضی ہوں۔ اب جو ﷺ منبر سے اترے اس کے ایک روای عبدالرحمن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ حضرت سے دریافت کرلیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے۔ یہاں آکر انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں ؟ آپ نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں ؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ۔ میں حضور ﷺ کے زمانے میں خیبر گیا۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھ بہت پسند آئیں۔ میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں۔ میں نے واپس آکر حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید حضور ﷺ کو میرا یہ کام پسند آگیا۔ لاکر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضور ﷺ تو سخت ناراض ہیں۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رواں رواں کھڑا ہوگیا۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں۔ چناچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا۔ یہ سنا کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہوجائے۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے۔ باہر آتے ہی جنگل میں جاکر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کردیں۔ مراسیل ابی داؤد میں بھی حضرت عمر ؓ سے ایسی ہی روایت ہے واللہ اعلم۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.